|Y| URDU STORY OF URTUGRAL GHAZI AND KURLUS USMAN |Y|




 تاریخ اسلام کے طالب علم جانتے ہیں کہ دین میں خلافت کی کیا اہمیت ہے اور یہ خلفائے راشدہ کے اہل زریں کے بعد گرگر گھاٹیوں سے گزر کر بالآخر انیس سو بائیس میں ختم ہو کر اہل اسلام کے دل پر وہ گاؤ لگا گئی جس کے جذبوں سے آج بھی خون رس رہا ہے اگرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ ایک وجود رکھتی ہے

 جناب حضرت اباب حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد تاریخ اس کا عمل دخل شروع ہو گیا تھا. اس کے باوجود مسلمان حکمران خود کو خلیفہ کہلاتے تھے. جس کی وجہ سے دنیا میں ہمارا ایک برہم قائم رہا. مگر بدقسمتی سے یہ غصہ عمارت بھی ایک صدی قبل اس وقت زمین بوس ہو گئی. جب ایک تو سٹار کے کریا میں یہ نعرہ گونج رہا تھا کہ بولی ابا محبت علی سے جان بیٹا خلافت پر دے دو. 


ناظرین گرامی میں ہوں کاش شوکت اور آپ دیکھ رہے ہیں شان ٹی وی. جس نے آج کی زیر نظر ویڈیو کے لیے تاریخ میں سب سے طویل عمر رکھنے والی خلافت عثمانیہ کو اپنا معجزے سخن بنایا ہے. جس میں اس عہد کے سرسری جائزے کے ساتھ ساتھ اس معاہدے کا بھی خاص طور پر تذکرہ کیا جائے گا. 

جو کہ اس کے خاتمے کے وقت اتحادی قوتوں اور اس کے شکست خوردہ حکمران کے درمیان طے ہوا تھا. جس کی عمر ایک سو مقرر کی گئی تھی. اور حق جانتے ہیں کہ یہ باقاعدہ مدت آئندہ آنے والے سالوں میں ختم ہو جانے والی ہے. اس کے بعد نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں ایک بہت بڑی تبدیلی کے مواقع موجود ہیں.

 لیکن اصل موضوع کی جانب بڑھنے سے پہلے چینل کو سبسکرائب کر لیں اور ساتھ لگے بیل آئیکون کو ضرور پریس کریں تاکہ ہماری آنے والی تمام ویڈیوز کا نوٹیفیکیشن بروقت آپ کو مل سکے. معزز ناظرین بنو ام کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک سو بتیس ہجری میں خلافت بندوق عباس کا قیام وجود میں آیا. 

اور قریب پانچ صدیوں تک قائم رہا. اور اس زمانے میں بغداد نہ صرف علم و حکمت کا گھر تصور ہوتا تھا بلکہ اس کا شمار دنیا کی طاقتور ترین حکومتوں پہ بھی ہوتا تھا. جس کو ہارون الرشید اور مامون الرشید جیسے عرفہ نے قوت اور حشمت تک پہنچا دیا تھا. لیکن فطرت کے اس اصول یعنی ہر قبل زوال کے تناظر میں جب آٹھویں خلیفہ محتسب بلا کے بعد عباسیوں نے محض حفس اقدار کو اپنا ماتم نظر بنا لیا 


تو ہلاکو خان کے ہاتھوں اس کا بھی خاتمہ ہو گیا اور یہ تاریخ اسلام کا وہ خونی باب ہے جس کو رقم کرنے کے لیے شیر کا کلیجہ درکار ہے. لیکن چونکہ آج کا ہمارا موضوع خلافت عثمانیہ ہے جس نے اسی راہ سے جنم لیا. تو ہم اسی تک دور رہتے ہوئے ابھی اسے صرف نظر کریں گے

ertugrl ghaazi story in urdu

. ناظرین محترم عین اس لمحات میں جب بلا لحاظ عمرو جنس مسلمانوں کا خون بغداد کی گلیوں کو سیراب کر رہا تھا اور تاتاریوں نے صرف مسلمانوں پر زندگی حرام کر دی تھی. کہ ایک دین دار گھرانے میں ایک بچے نے آنکھ کھولی اور اس کے والدین نے نامولود کا نام عثمان رکھا. جس سے ان نام مہربان موسموں میں ہر ممکن حد تک اچھی تربیت کی گئی. اور جب وہ جوانی کے حدود میں پہنچا تو اس نے اپنا روحانی تعلق ایک درویش خداوست سے قائم کر لیا. اور پھر ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ اس کے مرشد کے سینے سے ایک چاند نکل کر اس پر سایہ فخر ہو گیا. ساتھ ہی اس نے دیکھا اس کے قدموں سے ایک درخت نے جنم لیا جو دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف جوان ہو گیا


 بلکہ اس کی شاخوں نے دنیا کے بہت حصے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اسی کی کوکھ سے اس نے چار دریاؤں اور چار پہاڑوں کو بھی نکلتے دیکھا. اور جب خواب سے بیدار ہونے کے بعد عثمان نے اپنا خواب اپنے مرشد کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے کہا مبارک ہو اللہ نے تمہیں اور تمہاری اولاد کو اپنے دین کے لیے چن لیا ہے. ناظرین گرامی یہ بارہ سو ننانوے کا سال تھا جب فطرت نے عثمان کو دولت سلطنت عثمانیہ قائم کرنے کی بخشی. یہ نہ زاہدہ اسلامی مملکت اس پاسیہ حکومت کے پڑوس میں جس کو آج ہم اہل روح کی حکومت سے معصوم کرتے ہیں.


 قابل قدر ناظرین عثمان جس کو ترک آج بھی غازی عثمان کے نام سے یاد کرتے ہیں کا عہد حکمت ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے. جس میں عدل و انصاف کی حکمرانی تھی غازی عثمان نے اپنی زندگی میں ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی. جو کہ آنے کئی صدیوں تک قائم رہی. یہ عظیم حکمران جب بارہ سو چھبیس میں اس دنیا سے رخصت ہوا تو اس نے موت سے قبل اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی وہ آج بھی قطب تاریخ میں آج بھی ایک بہترین ضابطے کی صورت میں موجود ہے.


 اس نے کہا کہ جہاد فی سبیل اللہ کو قائم رکھتے ہوئے ہمیشہ دین اسلام کا پرچم سربلند رکھنا. اور ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم رہنا نے کہا کہ میری نسل سے جو شخص بھی اسلام سے بے وفائی کا مرکب ہو گا وہ روز حشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم رہے گا اور پھر اس کے بعد چھ سو ستائیس سال تک دولت عثمانیہ پر اسلامی خلافت قائم رہی. جس دوران کئی ایک نامور حکمران آئے جنہوں نے اس کی آبیاری کرتے ہوئے اسے دنیا کا ایک عظیم سلطنت میں بدل دیا. اور پھر آنے وقت نے ثابت کیا کہ عثمان کے خواب میں آنے والے دریاؤں میں دجلہ, فرات, نیل اور دریائے نیل میں شامل تھے. اور جبکہ پہاڑوں میں کوہ طور کوہ بلتان کوہ قاف اور کوہ اطلس تھے


 جو کہ بعد ازاں اس کی کلمہ روح کا حصہ بنے. ناظرین گرامی جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ انیس سو بائیس میں اس وقت خلافت عثمانیہ کو ایک بین القوامی معاہدے کی روح سے ختم کر دیا گیا. لیکن ہم سے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو معاہدے کے بارے میں آگاہ ہوں. جس کی تفصیلات ہم آپ کو سامنے رکھ رہے ہیں. جن کو جاننے کے بعد ہمیں امید ہے آپ دنیا کے موجودہ حالات اور اسلام میں عالم اسلام کے حالت زار کے بارے میں بہتر تجزیہ کر سکیں گے. جب پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا. 

تو اس کے بعد اتحادی ممالک میں برطانیہ اور فرانس جیسی قوت شامل تھیں. نورت سلطان سے معاہدے میں ہشرات منوائی. جن کے مطابق سلطان کی ذاتی املاک کو ضبط کرلیا گیا. خلافت عثمانیہ جو کہ تین براعظموں میں پھیلی تھی کو ختم کر دیا. اور آپ اس کے وسط کا اندازہ لگانا چاہیں تو حیران رہ جائیں گے. کہ اس کو توڑنے کے بعد دنیا میں چالیس آزاد ممالک وجود میں آئے. جن میں آج کی دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک شامل ہیں. گو مسلمانوں کی قوت مختلف چالیس دائروں میں تقسیم ہو کر رہ گئی. جس کے بعد یہودی اور نصرانیوں کا super power بننے کا راستہ ہموار کیا گیا. ترکی جو کہ اس کے قبل عالم اسلام کا مرکز تصور ہوتا تھا. کوسیکولر state کا درجہ دے دیا گیا.

 سلطان کے تین براعظموں پر پھیلے ہوئے اثاثوں کو ضبط کر لیا گیا اور ترکی میں آئندہ سو سال تک اسلامی نظام کے نافذ اور خلافت پر پابندی عائد کر دی گئی. اسی کے علاوہ اس کو معاشی طور پر تباہ و برباد کرنے کے لیے یہ شرائط بھی رکھی گئی. کہ وہ اگلے سو سال تک اپنی کوئی معدنیات جن میں تیل نمایاں دولت تھی کو استعمال نہیں کرے گا. اور تیل کے مزید کنویں بھی نہیں کھودے جائیں گے. جبکہ مزید ظلم یہ کیا گیا کہ اس کی بندرگاہ پاس فورس کو ترکی ملکیت کو ختم کرتے ہوئے اسے عالمی تصور میں دے دیا گیا. اور یہ شرائط رکھی گئی

 story of ertugral ghazi and kurlus usman /urdu/hindi/english

ہ تورک اس سے کسی قسم کا ٹیکس وصول نہیں کر سکے. یہ سب شرائط نافذ کرنے کے بعد ساتھ ہی یہ طے کر دیا گیا کہ ترک سلطنت اگلے سو سال تک اس معاہدے کا احترام کرنے کی پابند ہوگی. ناظرین گرامی وقت اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ چلتا رہا اور ترک مسلمانوں اور بالعموم تمام عالم اسلام نے یہ صدی کس کرب سے گزاری. اگر اس کی داستان کو لکھنے کی بات کی جائے تو ظاہر ہے پوری کتاب کی ضرورت پڑے گی. لیکن یہ عہد پر آشوب اپنی تمام تر حشرہ سا معنیوں کے ساتھ اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا. اور اب مزید کچھ سال بعد پورک اسے اپنے معاہدے سے آزاد ہونے والا ہے. جس نے سو سال تک اس سے اس کی آزادی کو چھینے رکھا.

 جوں جوں وقت قریب آ رہا ہے. توں تو اسلام مخالف قوتوں کی راتوں کی نیندوں میں خلل آنے لگا ہے. کہ معاہدے کے دنیا میں ایک بار پھر نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے. جس میں طاقتور شاہ طے ترک میں موجود قیادت جو کہ طیب اردگان کا قول و عمل دے رہا ہے. اس کے باوجود ترکی کو اسلام سے دور رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی. لیکن اس کے باوجود حالات گواہی دے رہے ہیں کہ وہ چگیاریاں جس کو آ گیار نے اپنی مکاری سے دبانے کی سر توڑ کوشش کی. وہ پھر ایک بار شولا پن کے لیے بے تاب ہے. بلکہ طیب اردگان کے طرز عمل پر ذرا سا بھی انہور کرے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ برما کا معاملہ ہو یا کشمیر کا معاملہ سب سے پہلے مسلمانوں کے حق میں جو آواز بلند ہوتی ہے وہ طیب اردگان کا نصرہ مستانہ سے ہوتی ہے. 

بلکہ حال ہی میں جب صدر ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف زبان کھولی تو اس کی مذمت بھی سب سے پہلے ترکی کی سر زمین سے کی گئی. جب یہ وعدہ اپنی مدت آپ مر جائے گا پھر حالات اس طرف رخ کریں گے. اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں. مگر طیب اردگان کا یہ پیار کہ دو ہزار تئیس کے بعد پہلے جیسا بیمار ملک نہیں رہے گا بلکہ وہ عالمی سیاست میں ایک صحت مند کردار ادا کرے گا. اس بات کا گواہ ہے کہ آنے والے وقتوں کے لیے خود کو تیار کر چکا ہے. اور شاید اقبال کا یہ شاعر اگر عثمانیوں پہ کوہ غ ٹوٹا تو کیا غم ہے? 

خون سادہ ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ناظرین گرامی اگر ہم تاریخ کے آئینے میں دیکھنے کی جزارت کریں تو یہ بات ان کے سامنے آتی ہے کہ تاغوت کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ اسلام کبھی بھی دنیا کے کسی بھی خطے میں اپنی اصل شکل کے ساتھ نافذ نہ ہو سکے. اور اگر ماضی میں بھی کبھی ایسی کوشش کی گئی


 تو اس کی مخالف تمام ابلیسی قوتیں متحد ہو گئی. جس کی تازہ ترین مثال اف

|Y| History of Ertugral Ghazi The Truth |Y|

غانستان میں ملا عمر کی اسلام کے نافذ کی کوشش تھی. جو طاغوت کے لیے ڈرونہ خواب تھا. جس کے مقابلے میں ہم نے دیکھا کہ دنیا کی تمام قوتیں اس کے پسماندہ ترین ملک کے خلاف صف آرا ہو گئی. جن کے بارے میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ یہ کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے.

 بلکہ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں. یہ گوارا کرتے ہیں ملت اسلامیہ کا بھی ایک مرکز تلے جمع نہیں ہو سکتے. یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسلام کی خلافت کو ختم کرنے کے لیے اپنے تائیں ایک بڑا معرکہ سرکر لیا تھا. اور اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ شاید ایک صدی کے گرد تلے دبے یہ ترک مسلمان دوبارہ اپنی فطرت جارحیت اختیار نہیں کر سکیں گے. لیکن وقت کے تیور بتا رہے ہیں کہ اب ان کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکے گا. پھر ایک دفعہ دنیا میں خلافت کی بنیاد رکھی جائے گی. کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق قیامت سے قبل خلافت قائم ہو کر 

the great story of ertugral ghazi and usman

. مسند احمد میں موجود حدیث کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ ادوار کا ذکر فرمایا ہے. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے اندر نبوت کا دور رہے گا. جب تک اللہ چاہے اور پھر اللہ اٹھا لے گا جب اسے اٹھانا چاہے یعنی جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم رہے وہ دور رہا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے دور کا ذکر فرمایا پھر خلافت منہاج النبوہ قائم ہوگی پس یہ دوسرا دور بھی قائم رہے گا 

جب تک اللہ چاہے گا اور پھر جب اللہ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے دور کا ذکر فرمایا کہ کھاٹ کھانے حکومت کا دور آئے گا. حکومت کا یہ دور بنو امیہ اور بنو عباس کی ملکیت کا دور تھا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا. یہ دور بھی رہے گا. جب تک اللہ چاہے گا پھر اسے بھی ایسے ہی ختم فرما دے گا.


 پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھے دور کا ذکر فرمایا. پھر جابرانہ بادشاہت کا دور آئے گا. جابرانہ بادشاہت سے مراد غیروں کی غلامی اور پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچویں دور کا ذکر فرمایا. کہ خلافت منہاج النبوہ قائم ہو یعنی پھر پہلے کی طرح خلافت کا دور آئے گا جو نبوت کے نقشے پر ہی قائم کی جائے گی. ہمارا ایمان ہے کہ وہ دور لازما آئے گا جس کی خبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی. کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کبھی غلط نہیں ہو سکتی

. ناظرین گرامی خلافت عثمانیہ کی زمین پر طیب اردگان جیسی شخصیت کی موجودگی اس بات کی دلالت کر رہی ہے کہ شاید آنے والا وقت ایک دفعہ پھر اس امت کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے کے لیے اپنی چال چل چکا ہے. ہماری دعا ہے کہ خدا وہ وقت جلدی لائے کہ امت کے ان زرخیز مقدس دماغوں کے اندر وہ احساس زیاں جنم لے سکے. جو کہ اتحاد امت راستوں کا حقیر بن سکے. آمین 

Post a Comment

0 Comments